Mchoudhary

Add To collaction

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری



قسط10 
••••••••••••••••••
**
"کتنی ظلم ہوتی ہے یہ پل دو پل کی محبّت 
نہ چاہتے ہوئے بھی دل کو کسی کا انتظار رہتا ہے"
**
بقلم
ملیحہ چودھری


لمبہ قد , کسرتی بدن گینہوا رنگ، مزاج کِاسنجیدہ
اور غصّہ کا تیز"شہزین ملک شاہ..."وہ اپنے ٹریس اور کھڑا سگریٹ پر سگریٹ نوش فرما تھا"آج بھی وہ اس دشمن جان کو یاد کر رہا تھا"جو برسوں پہلے ہواؤں کی طرح کہیں غائب ہو گئی تھی..کہاں سے ڈھونڈوں ..؟ کہاں سے..."ایک بارصرف ایک بار تم میرے دسترس میں آ جاؤ..."میں تمہیں پھر کہیں نہیں جانے دونگا۔۔کہیں بھی نہیں"وہ خود سے ہی بڑ بڑا رہا تھا...میں وعدہ کرتا ہوں جس نے بھی تمہیں مجھ سے چھینا ہے"میں اسکا وہ حال کروں گا کہ وہ خوابوں میں بھی نہیں سوچے گا..."آج بھی وہ وعدہ کر رہا تھا.. ہر بار کی طرح"..تم کیسی دیکھتی ہوگی...؟کہاں پر ہوگی.؟اور پتہ نہیں کیسے حال میں ہوگی..؟لیکن مجھے اتنی اُمید ضرور ہیں." تم میرے لیے زندہ ضرور ہو
"اپنے شہزین ملک کے لئے..جو تمہیں بے شمار چاہتا ہیں..جس کی ہر رگ میں تم خون بن کر دوڑتی ہو"... ہر سانس میں تمہاری سانس چلتی ہے"میں تمہیں بہت چاہتا ہوں"میں جسم ہوں تو تم میری روح ہو" میرے جسم میں دل ہے تو دھڑکن تم ہو.."وہ آج آفس نہیں گیا تھا"کیونکہ آج رات کو حویلی میں پارٹی تھی.وہ عصر اور مغرب کے بیچ ٹریس پر کھڑا اپنے اندر کی گھٹن کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا..جب اسکا فون وائبرٹ ہوا" اس نے پلٹ کر موبائل کی طرف دیکھا" اور پھر کال اٹھا لی.." ہاں بولو."دوسری طرف سے نہ جانے کیا بولا گیا تھاکہ اُسکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی... گڈ..!آج شام تک تمہیں پیسے مل جائے گے..اس نے یہ بول کر فون کاٹ دیا تھا..." فائنلی تم مل ہی گئی..اب وہ دن دور نہیں جب تم میری دسترس میں ہوگی....وہ یہ بول کر اپنی نکاح کی پرانی یادوں میں کھو گیا تھا.......جو اُسکے لئے اُسکی محبّت کی منزل کِ پہلی سیڑھی تھی.." جب تک تو وہ محبّت کے "م" سے بھی ناواقف تھا...
*******************
ماضی»»»»»»
ہسپتال میں سب ہی گھروالے موجود تھیں."ملک شاہ,کمال شاہ,حسن شاہ , رکسانہ بیگم اورانکے پاس ہی پانچ سالہ شہزین بھی تھا..اور دو تین گواہ ایک قاری صاحب... جو نکاح پڑھوانے کے لیے آئے تھیں.."دروازہ کُھلا اور نورالعین بیگم کے ساتھ مدیحہ آئی " نورالعین بیگم نے ایک ہاتھ سے مدیحہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ میں نور کو گود میں تھاما ہوا تھا....مدیحہ کو دیکھتے ہی شہزین دوڑتا ہوا آیا تھا..اور مدیحہ کا ہاتھ پکڑتے اپنی توتلی آواز میں بولا تھا..مدی "دیتھ نہ آد ہم دونوں تا نتاح ہیں..میں نے بولا تا نہ میں تمہیں بہت اسپیتل گفٹ دونتا...وہ اپنی بات بول کر مدیحہ کی طرف دیکھنےلگاتھا.اسکی بات پر سب ہی مسکرا دیے تھیں.." تھوڑی دیر بعد دونوں ایک اٹوٹ بندھن میں بندھ گئے تھے.."نہ ٹوٹنے والے بندھن میں....سب ہی خوش تھے بہت خوش مہرین بھی بہت خوش تھی...."لیکن ساتھ ساتھ اس کا دل بھی بہت گھبرا رہا تھا" اسکو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ان اپنوں کو پھر کبھی نہیں دیکھ پائیگی... مہرین کی جہاں شہزین میں سانس بستی تھی وہیں مدیحہ انکی زندگی اور محبّت کی پہلی نشانی تھی..اُنہونے ایک نظر اپنی بیٹی اور بیٹے یعنی شاہزین کی طرف دیکھا تھا..اور پھر اپنی دوسری بیٹی کی طرف جو انکی روح کا حصہ بن کر اس دنیا میں آئی تھی...
ماما مہرین نے پاس بیٹھی رکسانہ بیگم کو پکارا تھا" مہرین کی آواز پر رکسانہ بیگم نے اس کو بہت پیار سے دیکھا تھا" جیسے پوچھ رہی ہو" کیا بیٹا...؟ ماما بےبی کا اپنے کیا نام سوچا ہے...؟ میں نے کیا سوچنا بیٹا..؟ سوچنا تو آپ دونوں نے ہے۔۔۔وہ بہت پیار سے مہرین کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی تھی..." نہیں ماما اپنے ہی رکھنا ہے بےبی کا نام..کیونکہ ہم سب سے پہلے اس بےبی پر آپکا حق ہیں......"اب کی بار کمال شاہ نے بھی رکسانہ بیگم سے کہا تھا......" ٹھیک ہے بھئی..! وہ کھڑی ہو گئی تھی" اور بےبی کو گود میں لیتی بولی تھی..." اب جب نام رکھنا ہمارے ہی زمّے ہے۔۔ بےبی کا نام رکھنا تو انہوں سبکی طرف دیکھا" اور پھر بےبی کے سر پر بوسہ دیتی بولی تھی .. مائشا.....! ایک کا سکون تھی ،ایک کی خوشی تھی، تو ایک کی زِندگی، اور خود پاکیزہ نور سے گندھی مائشا کمال شاہ.... ہاں مائشا کمال شاہ جسکی زندگی شروع ہونے سی پہلے ہی آزمائش نے اسکو آن گھیرا تھا ۔۔سب ہی بہت خوش تھے..." بہت زیادہ... لیکن کون جانتا تھا یہ خوشی انکو راس نہیں آنے والی تھی۔۔۔اس خوشی کو کسی اپنے بہت ہی اپنے کی نظر پہلے سے ہی لگ گئی تھی۔۔۔
**********************
حال»»»»»»
شاہ حویلی آج جگمگا رہی تھی" ویسے تو ہر روز ہی جگمگاتی تھی..... لیکن آج کی جگمگاہٹ ہر دن سے مختلف تھی" مہمانوں کا آنا شروع ہو گیا تھا۔بہت بڑے بڑے بز نس بہت بڑے بڑے سیاستدان بھی اس پارٹی میں آئے ہووے تھیں " ہر طرف خوشی کا سماں تھا" حسن شاہ بھی دلّی سے آ گئے تھیں...سب ہی لان میں تھیں" صرف مائشا اور نور کے علاوہ..... عالیان بیٹا نور اور مائشا بیٹیاں کہاں پر ہے نظر ہی نہیں آ رہی.. حسن تایا نے ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں عالیان سے پوچھا تھا.." تایا ابّا پتہ نہیں....؟ شائد اندر ہو یا پھر اپنے روم میں علیان نے انکو بتایا تھا... اچھا۔۔! جاؤ بلا کر لاؤ... اب حسن شاہ کی طرف سے حُکم صادر کیا گیا تھا... جی ابّا عالیان یہ بول کر اُن دونوں کو بلانے چلا گیا .....شہزین بیٹھا بار بار گیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا... لیکن وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا....وہ ابھی نظر ہٹانے والا ہی تھا جب ایک بلیک کار حویلی کے گیٹ سے اندر آتی دکھائی دی... جس کی فرنٹ سیٹ پر منہال بیٹھا تھا.. اور اُسکے برابر والی سیٹ پر ایک لڑکی بیٹھی تھی جو بلکل مہرین چاچی سے مصاحبت رکھتی تھی....۔۔شائد وہ مدیحہ تھی یہ شہزین کا خود کا اندازہ تھا... ابھی تک وہ مدیحہ سے ملا نہیں تھا " کیونکہ اس پروجیکٹ پر شاہزیب کام کر رہا تھا....اور شہزین کسی اور دوسرے پر... آج کل شاہزیب ہی کمال چاچو کا بز نس سمنبھال رہا تھا" جب سے کمال چاچو کا انتقال ہوا تھا....."وہ اٹھا اور سیدھا منہال کی طرف بڑھا تھا"اور انکے پاس جا کر اس نے سلام کی .." السلام علیکم...! وعلیکم السلام منہال نے شہزین کے گلے ملتے سلام کا جواب دیا تھا.."اتنی دیر کیسے..؟ شہزین نے پوچھا..بس ٹریفک کی وجہ سے...! منہال نے بتایا.. اوکے..! آؤ سب کے پاس چلتے ہے.. شہزین بولا اور اُن دونوں کو اپنے ساتھ لیے سب کے پاس آ گیا....وہ سب بیٹھے بات کر رہے تھیں..." مدیحہ کو تو جیسے سب ہی بھول گئے تھیں۔۔نہ کوئی تعارف نہ کوئی جان پہچان .. وہ وہاں اُن سب کے بیچ بیٹھی بور ہو رہی تھی..اللّٰہ کیسے کیسے لوگ ہے...؟ کسی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ بیچاری ایک لڑکی بھی ان سب کے درمیان بیٹھی ہے... کوئی زیادہ ہی نہیں تو تعارف ہی کر لے "پر نہیں اُن سب کو دکھے گا بھی کیسے..؟ وہ خود سے بڑ بڑا رہی تھی... اور اس کی بڑبڑاہٹ کو شہزین نے بھی بخوبی سنہ تھا" شہزین کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی..جس کو اسنے بڑی مشکل سے روکا تھا" مدیحہ نے عالیان کے ساتھ مائشا نور اور رامین کو ساتھ آتے دیکھا.. یہ یہاں کیسے ...؟ مدیحہ کو حیرت نے آن گھیرا تھا ..ارے پگلی ہو سکتا ہے یہ بھی تیری طرح ہی پارٹی میں آئی ہو .." وہ اب خود سے ہی اندازہ لگا رہی تھی.. مدیحہ نے اپنے سر پر چپٹ مار کر اپنی عقل پر افسوس کیا تھا... اور پھر خود سے ہی بولی "جو بھی ہو بھئی مجھے تو کمپنی چاہیے اور نور کے علاوہ مجھے کوئی اچّھی کمپنی دے ہی نہیں سکتا " کیونکہ.......
***""ہم ہے کمال کے
اور 
ہم ہے دھمال کے"**
..مدیحہ نے نور اور اسکا بولا جانے والا ڈائیلاگ بولا تھا" پھر وہ اپنی بات پر خود ہی مسکرا دی... شہزین بھی اُسکی ہر بات کو بہت غور سے سُن رہا تھا.. اور من ہی من مسکرا بھی رہا تھا...ابھی وہ جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ مدیحہ ہے بھی یا نہیں..؟لیکن جس انداز سے وہ لڑکی بول رہی تھی(یعنی خود سے بات کر رہی تھی) ایسے تو سامنے والا بخوبی سن سکتا تھا...اور ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا ہوتا..یہ تو اچھا تھا کہ وہ شہزین ملک شاہ تھا.. اُن تینوں کو دیکھ کر مدیحہ نے سکون کا سانس لیا تھا"بھائی میں ابھی آتی ہوں مدیحہ یہ بول کر وہاں سے اٹھ گئی تھی... اگلے کا جواب سنے بغیر..."منہال نے مدیحہ سے کچھ پوچھنے کے لیے" اسکو آواز دینے کے لیے اپنی نگاہ اوپر اٹھائی تو " سامنے سے آتی مائشا پی ٹھہر ہی گئی تھی " اور پلٹنا ہی بھول گئی تھی...... ریڈ اور بلیک کنٹراس کا بہت گھیر دار فراک پہنے ہمیشہ کی طرح حجاب میں پُرنور چہرا" میکپ سے بلکل پاک چہرا تھا اسکا اور پھر بھی وہ ان سب میں بہت مختلف اور خوبصورت لگ رہی تھی...منہال کا تو دل ہی نہیں کر رہا تھا مائشا پر سے نظر ہٹانے کو.... ماشاللہ منہال نے نظروں ہی نظروں میں مائشا کی نظر اُتاری اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی اسکو اپنی نظروں کا زاویہ بدلنا پڑا تھا"اور باتوں میں مشغول ہوگیا....مدیحہ .......... میری جان تم یہاں........ نور دور سے ہی چلّاتی ہوئی قریب آئی تھی.. اور اُسکے ساتھ ساتھ مائشا بھی تھی.." مدیحہ کا نام سن کر شہزین کو تصدیق ہو گئی تھی کہ ہاں یہیں اُسکی دشمن جان ہے.....نور نے سلام کی تھی اور پھر وہ تینوں ایک سائڈ پڑی چیئر پر آکر بیٹھ گئی تھی..." یار تم یہاں...؟ مدیحہ نے اپنے دل میں اٹھنے والے سوال کو زبان دے ہی دی تھی.." کیونکہ وہ مدیحہ تھی.." جس کا بن بولے کام تو چلتا ہی نہیں تھا.."کوئی اگر اسکو دیکھ لیتا تو یہ نہیں بول سکتا تھا کہ یہ "احسان انڈسٹریز "کی مالک ہے.... "ہیں ں ں... یہ کیا بات ہوئی.."مطلب میں اپنے ہی گھر میں کیا کر رہی ہوں..؟ چلوں تم ہی بتاؤ میں یہاں کیا کر رہی ہوں.." نور نے بہت معصومیت سے بولی تھی.." بس بس اتنی معصومیت چہرے پر سجانے کی ضرورت نہیں.." اب شرافت سے بتاؤ" یہاں کیا کر رہی ہو تم...؟ مدیحہ نے اسکی معصومیت پر طنز کرتے اپنی بات دوہرائی تھی..."آپی میں بتاتی ہوں..." مائشا کو تو آج یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ نور آپی اتنا بھی بولتی ہیں۔۔" وہ مدیحہ کو دیکھ کر بولی تھی..." اُسکے اتنے پیار سے آپی بولنا مدیحہ کی تو آنکھیں ہی نم ہو گئی تھی.. ہاں ہاں ...بتاؤ گڑیاں.یہ تو کسی کام کی ہی نہیں ہے...؟مدیحہ نے نور کی طرف گھورتے مائشا کو بولنے کا کہا تھا... دراصل آپی یہ ہمارا ہی گھر ہے..." مائشا نے یہ بول کر مدیحہ کا چہرا بہت غور سے دیکھا تھا..." اسکو یہ چہرا کسی سے مصاحبت رکھتا نظر آیا تھا.." لیکن کس سے...؟ اسکو بلکل بھی سمجھ نہیں آیا تھا....اتنے غور سے کیا دیکھ رہی ہو..؟ مدیحہ نے جب مائشا کو اپنی طرف غور سے دیکھتا پایا تو پوچھے بغیر نہ رہ سکی ...کچھ نہیں بس ایسے ہی... مائشا بات کو ٹالتے بولی تھی اور پھر اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے لگی تھی۔۔" اُسکے نظر سامنے بیٹھے منہال پر ٹھہر گئی تھی.." اتفاق سے آج منہال بھی ریڈ اور بلیک رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھا.. ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ بہت ڈیسنگ اور دل کو اپنی مٹھی میں کر سکتا تھا۔۔۔" منہال بھی اسکو ہی دیکھ رہا تھا.."دونوں کی نظریں ٹکرائی... مائشا زیادہ دیر اُسکے آنکھوں میں نہ دیکھ سکیں اور حیاء سے اپنی پلکیں جھکا لی تھی... "شرم حیا سے اُسکے گال دہکنے لگے تھیں.." یہ رنگ تو منہال کے لیے بلکل نیا تھا..." اسکی آنکھوں کی چمک اور بڑھی تھی.." اب اسکا مائشا سے بات کرنے کو دل چاہ رہا تھا.." پر کیسے ...؟ وہ اسکو دیکھتے دیکھتے ہی سوچ میں پڑ گیا تھا.." مائشا سے اب وہاں بیٹھنا بحال ہو گیا تھا اس لیے وہ وہاں سے اٹھ گئی تھی.. اب وہ لان سے تھوڑا الگ پول سائڈ پر آ گئی تھی... وہ وہیں ایک سٹول پر آکر بیٹھ گئی تھی...اور چاند کو دیکھنے لگی...
*******************
*"تیرے میرے درمیاں ہے باتیں ان کہیں
تُو وہاں ہیں میں یہاں ہوں ساتھ ہم نہیں"*
منہال فون کا بہانہ بنا کر وہاں سے اٹھ گیا تھا... اسکا دل بہت پریشان کر رہا تھا..." آج اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مائشا کو ساری دنیا سے چھپا کر کہیں دور لے جائے...آج اسکو احساس ہو گیا تھا کہ وہ مائشا کمال شاہ کے بغیر ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا..وہی جانتا تھا کیسے اس نے اس واقعے سے اب تک بن دیکھے یہ دن گذارے تھیں.." ہر پل ہر لمحہ صرف مائشا مائشا اور بس مائشا ہی رہتی تھی..." وہ مسکرانا سیکھ گیا تھا.." سب میں بیٹھنا سیکھ گیا تھا... اور اکیلے میں رہ کر اب اسکو اپنا ماضی یاد نہیں آتا تھا.." اسکا دل اب کوئی بہانہ نہیں مانگتا تھا... اسکو مائشا کو سوچنا اسکو تصور کرنا اچھا لگتا تھا.." اُسکی مسکراہٹ, اُسکی آنکھیں اسکا حجاب میں دھناپا پُرنور چہرا " سب کچھ ہی تو پیارا لگتا تھا.." اسکا دل اب اس دلدل سے باہر نکلنے کو کرتا تھا" جس میں وہ پچھلے پانچ سال سے دھنسہ ہوا تھا...وہ مائشا کو ڈھونڈتے ہوئے پول سائڈ پر آ گیا جہاں مائشا اسکو سٹول پر بیٹھی چاند کو دیکھتے نظر آئی."وہ وہیں پر چل کر آ گیا تھا.."ہممم م م ....وہ خانسہ تھا" مائشا نے پلٹ کر اسکی طرف دیکھا اور پھر کچھ بھی بولے بغیر نظریں جھکا لی تھی....کیا میں یہاں پر بیٹھ سکتا ہوں... منہال نے اجازت چاہی.. جس کو مائشا نے گردن ہاں میں ہلاکر اجازت دے دی تھی... منہال تو آج مائشا کے اس رویہ کو سوچتا ہی رہ گیا.."وہ وہی پر ایک سٹول پر بیٹھ گیا تھا..اور پھر بات کی شروعات کرتے بولا.." آپ یہاں پر کیوں بیٹھی ہے..؟نور لوگوں کے پاس کیوں نہیں.؟
مجھے اکیلے میں بیٹھنا اچھا لگتا ہے..! مائشا نے اُسکے سوال کا جواب دیا.. اوہ..!اگر اجازت ہو تو میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں...؟ منہال نے یہ بول کر اُسکے طرف دیکھا تھا.." جی پوچھے..." اسنے اجازت دے دی.... آپ حجاب کیوں لیتی ہے..؟ یہاں پر آپکے علاوہ کسی بھی لڑکی نے حجاب نہیں لیا ہوا ہے.. وہ اُسکے آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کرتے بول کر رُکا اور پھر بولا اور آپکی محبّت کو لے کر کیا سوچ ہیں.."آئی مین" محبّت کرنا غلط ہے یا پھر..وہ اپنے فقرے کو ادھورا ہی چھوڑتا ہوا اب وہ اُسکی طرف دیکھ نے لگا... مائشا کو ایسے سوال کی منہال سے توقع نہیں تھی.." محبّت کے نام پر اسکا دل اچھل کر حلق سے باہر نکلنے کو تھا... جس کو اسنے ہاتھ رکھکر روکنے کی ایک ناکام سی کوشش کی تھی ورنہ جس لے پر اسکا دل دھڑک رہا تھا" ابھی دل نے نکل باہر آ جانا تھا.... بیختیار مائشا کے چہرے پر لال لال گلال پھیلے تھیں.." مائشا نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا تھا اور پھر بولی..دیکھیے مجھے فرق نہیں پڑتا کِ اور حجاب لیتے ہیں یا نہیں.." مجھے صرف اپنے آپ سے سروکار ہے..." کیونکہ ہر کسی کو اپنی اپنی قبر میں سونا ہے" اور کسی کی نہیں" اور میں حجاب اس لیے لیتی ہوں کیونکہ یہ میرا زیور ہے" مجھے لوگوں کی گندی نظروں سے بچاتا ہے" اور سب سے بڑھ کر یہ میرے اللّٰہ کا حکم ہے"... میرے اللّٰہ نے عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے...." جسکی تعمیل کرنا ہم بندوں کا کام ہے... میں یہ حجاب نہ تو کسی کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے کرتی ہوں اور نہ ہی کسی کو اپنے اچھا ہونے کا دکھاوا کرتی ہوں یہ میرے اللّٰہ کا حکم اور میرے نبی کی ہدایات ہے۔۔۔ اور رہی بات محبّت کی تو "میں۔محبّت کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتی ہاں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ محبّت ایک پاکیزہ جذبہ ہے.. محبّت اللّٰہ سے ہو یا پھر دنیا کی کسی بھی شے سے ہم کو اپنی نیت اور اپنی اخلاق اچھے رکھنے چاہئے.. محبّت جسم سے نہیں روح سے ہونی چاہئے" ایسی محبّت کہ اگر کوئی توڑنا بھی چاہے تو نہ ٹوٹے..محبّت میں سب سے پہلے محبوب کا اعتبار ہوتا ہے..وہ اعتبار جو کوئی بھی نہ توڑسکے...سب سے بڑھ کر محبت سچّی صرف ایک سے ہی ہو سکتی ہے۔۔۔اگر محبت کے دعوے دار نے اللّٰہ سے محبّت نبھا دی تو مانو کہ وہ ہر کسی سے بھی آسانی سے محبّت عمر بھر تک نبھا سکتا ہے۔۔۔محبّت وہ ہوتی ہے" جو حضرت یوسف علیہ السلام کو حضرت زلیخہ نے کی تھی" انکی محبّت میں اُنہونے اپنی ساری عمر ایک جنگل میں گزار دی تھی " محبّت وہ ہے " جو محبوب کو غلط راستے سے اللّٰہ تک کا سفر کرا دیں ..محبّت وہ نہیں ہوتی کہ انسان اپنے نفس کے قدم پر چل کر محبوب کو رسوائی دے..."کیونکہ جب انسان اپنے نفس کے نقش قدم پر چلنے لگتا ہے تو اُسے اپنے اِرد گرد لوگ نظر نہیں آتے،وہ بس اپنے نفس کی پیروی کرتا رہتا ہیں اور بعد میں اُسکے پاس کچھ بھی نہیں بچتا سوائے کھالی ہاتھ کے" وہ ایک لمحے کو رکی پھر بولی " آپکو پتہ ہے اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللھ علیھ وآلھ وسلّم نے فرمایا کہ محبّت کرنے والوں کے لیے نکاح سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے..."۔ بشر تیک وہ تم سے وہ سچّی محبّت کرتا ہو.. میں یہ نہیں کہتی کی محبّت کرنا گنہ ہے نہیں محبّت کرنا کوئی گنہ نہیں ہے...؟ محبّت تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ ہے.." ہاں یہ ضرور کہونگی کہ محبّت کرنے کا طریقہ ہمارے معاشرے میں غلط ہے.... ہمارا معاشرہ محبّت کو ایک غلط انداز سے اپنا رہا ہے.. اگر کسی کو محبّت ہو جاتی ہے تو وہ اپنے دین اپنے اسلام کو تو بھول ہی جاتے ہے.." محبّت میں وہ نہ جائز دیکھتا ہے اور ناجائز دیکھتا ہے..." جو دل آیا کر لیا پھر چاہے اسکا خمیازہ کچھ بھی بھگتنا پڑے...." آج کل بہت ہی برا حال ہمارے معاشرے میں چل رہا ہے.." جسکی وجہ سے لوگوں کا محبّت پر سے یقین اٹھتا جا رہا ہے.."اسنے اب منہال کی طرف دیکھا تھا.." جو اسکو ہی بہت غور سے دیکھ رہا تھا.."اتنی کی اسکو اپنے اس پاس کا بھی خیال نہیں رہا تھا..مائشا اُسکی نظروں سے گھبرا کر وہاں سے جانے لگی... آپ یوں مجھے نظرانداز کیوں کرتی ہو...؟ پیچھے سے منہال نے پوچھا تھا.." مائشا کے قدم وہیں پر ٹھہر سے گئے تھے.. م میں نہیں کرتی نظر انداز وہ بنا پلٹے ہی بولی تھی" کیونکہ اسکی چوری پکڑی گئی تھی.."اچّھا...! تو یہ کیا ہے...؟ منہال نے اُسکے جانے پر چوٹ کرتے کہا تھا.."وہ پلٹی تھی.... آخر میں آپکو نظرانداز ہی کیوں کرونگی.." وہ اپنے آپ کو سمبھال چکی تھی وہ بہت اعتماد سے بولی تھی..."تو پھر آپ میری آنکھوں میں جھانک کر بولے کہ تم مجھےنظرانداز نہیں کرتی.....وہ اپنی مسکراہٹ کو چھپاتے بولا.."اب وہ آپ سے تم پر آ گیا تھا...." مائشا وہیں پر جم کر کھڑی ہو گئی تھی.." اور بہت اعتماد سے بولی"اور آپکو لگتا ہے میں ایسا کرونگی..مائشا نے بھنویں اچکائے پوچھا تھا...ن نہیں..! منہال نے بھی اسکو جواب دیا تھا.." اور پتہ ہے آپکو کہ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے.." کیونکہ آپ کو میں اتنا تو جان ہی گیا ہوں کہ آپکا ضرور اس میں بھی اللّٰہ کا کوئی نہ کوئی فرمان تو جاری ہی ہو جائیگا."اُسکی بات پر مائشا کِ چہرے پرمسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا...چلے اچّھا ہے.." کوئی تو ہے جو مجھکو جاننے لگا ہے.." وہ بولی تھی.."اور پھر دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی تھی " اُن دونوں کو پول سائڈ پر کسی کی نظروں نے بہت اچھے سے دیکھا تھا.." اور اُسکے وجود میں ایک نفرت بھری لہر دوڑنے لگی تھی.." اب اُسکے دماغ میں نئے نئے شیطانی منصوبے تیار ہونے لگے تھے.. وہ دونوں ہنس رہے تھیں..اس بات سے بےخبر کی اُن دونوں کی ہنسی کو کسی کی نظر لگ چکی تھی...اب دیکھنا یہ تھا کیا اُن دونوں کِ ہنسی برقرار رہ پائیگی یا پھر ہمیشہ کے لیے روگ بن کر رہ جائے گی.. 
********************
شاہزیب ابھی ابھی لندن سے آیا تھا.."اُسکی غیر موجودگی میں یہ پارٹی ہو رہی تھی" کیونکہ پارٹی رکھنے کا مقصد ہی پروجیکٹ پر سنگنچر کروانا تھا.." پھر اس پروجیکٹ کو شروع بھی تو کرنا تھا..." اور شاہزیب کا ابھی پتہ نہیں تھا لندن سے آنے کا..."اور اب اچانک سے وہ پہلے ٹکٹ سے انڈیا واپس آیا تھا.کیونکہ لندن کے آفس کی میٹنگ کینسل کر دی گئی تھی"دادا جان کی طبیعت کے باعث...اور اب وہ شاہ حویلی میں موجود تھا.." جب وہ حویلی میں آیا تھا تب لان مہمانوں سے بھرا پڑا تھا.." وہ سب سے مل کر اپنے روم میں جانے کے لئے حویلی کے اندر جا ہی رہا تھا" تب اُسکے نظر پول سائڈ پر گئی..."جو اس نے دیکھا تھا.." اُسکے وجود میں نفرت کی ایک لہر دوڑ گئی تھی..' اور پھر وہ مسکرایا تھا .." آج اسکو موقع ملا تھا...اپنے منصوبے کو انجام دینے کا.. شاہزیب ملک شاہ اور شہزین دیکھنے میں تو ہر کوئی یہیں بولتا تھا کہ شاہزیب اور شاہزیب ایک ہی نیچر کے ہیں.. لیکن کوں جانتا تھا.." شاہزیب ملک شاہ جو باہر سے دکھنے میں شانت اور اپنے سے مطلب رکھنے والا ہے .." وہ اندر سے بلکل مختلف ایک شیطانی دماغ کا انسان ہے.. اُسکی تربیت صائمہ بیگم نے کی تھی.." کیوں اُسکے دماغ شیطانی نہ ہوتا ۔۔" آخر بچّے پر تربیت کرنے والے کا کچھ تو اثر پڑنا ہی ہوتا ہے.." اور صائمہ بیگم تو اُسکی ماں تھی... وہ جتنی محبّت اپنی ماما سے کرتا تھا." اس سے کئی زیادہ نفرت مائشا سے کرتا تھا.."وہ ایک نظر ڈال کر اندر کی طرف بڑھ گیا تھا..
*********************
بارہ بجنے میں ابھی دس منٹ تھیں.. موسم بہت اچھا تھا.." تھندی تھندی ہوائیں چل رہی تھی." ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی...مائشا ...... مئشا............... مایو کہاں ہو بھئی........ نور چلاتے ہوئے پول ایریا کی طرف آ گئی ......وہ کھڑی ہو کر چاروں طرف دیکھنے لگی .." اُسکے نظر سامنے کھڑی مائشا اور منہال پر گئی تھی.."اوہ ہو.... تو محترم اور محترمہ جی یہاں پر ہے... نور انکو دیکھ کر بڑبڑائی تھی.." مائشا کے پاس جا کر بولی...ہم م م.... اگر آپکی ہنسی ختم ہو گئی ہو تو یہ ناچیز بھی کچھ کہے....نور کھانستے ہوئے بولی. نور کی آواز کو سن کر مائشا کی ہنسی کو بریک لگی تھی.."اور پیچھے مڑتی ہوئی بولی آپی آپ یہاں ...؟مائشا نے حیرت اور شرم سے ملے جلے تاثرات لئے نور کو دیکھا تھا کہ نجانے نور آپی اُسکے بارے میں کیا سوچ رہی ہوگی.. کہ بڑی اللّٰہ اللّٰہ کرنے والی یہاں پر ایک لڑکے کے ساتھ ہے وہ بھی اکیلے میں.... جی جناب میں ہی ہوں"اور تمہیں پتہ ہے میں کتنی دیر سے تمہیں ڈھونڈ رہی ہوں.." لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ تم یہاں پر ہو.... آخری بات نور نے مسکرا کر منہال کے چہرے کو دیکھتے بولی تھی..."منہال تو نور کی بات کا مفہوم بہت اچھے سے سمجھ گیا تھا.." لیکن بیچاری ہماری مائشا مادام کے تو سر سے گزری تھی....آپی میرا نہ وہاں پر بہت زیادہ گھبراہٹ ہو رہی تھی.." تو میں یہاں پر آ گئی.."کوئی بات نہیں گڑیا چلو... سب تمہیں پوچھ رہے ہے.."اور عالیان تو کئی بار مجھ سے پوچھ چکا ہے تمہارے بارے میں.." اب جلدی کرو... بھئی نور مائشا کا ہاتھ تھامے اپنی ساتھ لے گئی تھی" اور مائشا بھی نور کے ساتھ چلی گئی تھی.." اور منہال نے اسکو دور جاتے دیکھا اور پھر بولا .." مائشا کمال شاہ سچ میں تم میں کچھ تو ہے" جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مجھے تم سے باندھ رہا ہے..اسنے ایک لمبائی سانس ہواؤں کے سپرد کی اور وہاں سے لان کے طرف چلا آیا تھا.."جہاں سب موجود تھیں......
*********************
ہر طرف گہما گہمی تھی"... مدیحہ کو اُلجھن سے ہونے لگی تھی.." نور مائشا کو بلانے کے لیے گئی تھی.."اور رامین واشروم گئی تھی..." مدیحہ اکیلی ایک طرف بیٹھی اپنے موبائل میں لگی ہوئی تھی.." اچانک سے کوئی ویٹر اُس سے آکر ٹکرایا تھا".. ویٹر کے ہاتھ میں جوس کی ٹرے تھی وہ چھوٹ کر نیچے گر گئی تھی " نیچے گرنے کی وجہ سے جوس کی کچھ چھینٹے مدیحہ کے کپڑوں پر آکر گر گئی تھی..... اوہ شٹ.....!یہ کیا بدتمیزی ہے....؟ مدیحہ نے غصے سی چیختی ہوئی ویٹر کی طرف دیکھتی بولی.... س سوری میم......! ویٹر گھبراتے ہوئے بولا...." اچھا اچھا " یہ بتاؤ واشروم کہاں پر ہے....؟ مدیحہ نے ویٹر سے پوچھا تھا......." ویٹر نے شہزین کی ہدایت کے مطابق شہزین کے روم کی طرف لے گیا... اور پھر بولا.." میم آپ اس روم میں چلے جائیں..." اور باقی کے روم لاکڈ ہے نہ تو آپ اس میں ہی چلے جائیں......"ویٹر بول کر وہاں سے چلا گیا تھا..." مدیحہ نے روم کا دروازہ کھولا تھا.......اور اندر کی طرف بڑھ گئی..."مدیحہ نے روم آ کر چاروں طرف نظر دوڑایں" یہ کمرا بہت بڑا تھا...اور خوبصورت تھا.....ایک طرف جہاز سائز کا بیڈ اور اُسکے برابر میں ڈراور تھیں..."روم سے جڑا ہوا ڈریسنگ روم تھا... روم میں ایک گلاس وال تھی.." جس پر نفیس سے پرڈے ٹنگے تھیں.... اس گلاس والا سے سلائڈنگ والا ایک دروازہ تھا جو بالکنی میں کھلا ہوا تھا... بلیو اور وائٹ ٹھیم کا یہ روم بہت ہی خوبصورت تھا..."مدیحہ نے دل ہی دل میں روم کو تعریف کِ تھی..." وہ اس سے پہلے اپنے قدم آگے بڑھاتی..." جب روم کی لائٹ بند ہوئی.... اور دروازہ کھیل کر کوئی اندر آیا تھا..." آنے والے کی صرف پڑچھائی نظر آ رہی تھی .." مدیحہ خوف زدہ سی بولی تھی....... ک کون ہے...؟ اس کی خوف کی وجہ سے آواز بھی حلق سے باہر نہیں نکل رہی تھی...... وہ پڑچھائی... اُسکے طرف ہی آنے لگی تھی.."مدیحہ نے اپنے قدم پیچھے کی طرف بڑھانے لگی تھی..." اس نے ہاتھ میں تھاما موبائل کی ٹورچ جلانے کی کوشش کرنے لگی .."ہائے رے قسمت موبائل کی بیٹری لو ہونے کی وجہ سے ٹارچ بھی نہ جل سکی... ک کون ہے وہاں پر.." وہ پھر سے بولی اور ساتھ ساتھ پیچھے کی طرف قدم بھی بڑھا رہی تھی....جب وہ گلاس وال سے جا لگی تھی.." خوف سے اسنے اپنی انہیں زور سے بند کی تھی.." جب اسکو بہت اپنے قریب سے قلون کی خوشبو آئی تھی اسنے اور زور سے اپنی آنکھیں بند کرنے کِ کوشش کی تھی.." جیسے ایسا کرنے پر یہ سب ختم ہو جاتا.." مقابل نے اسکا مخروطی انگلیوں والا ہاتھ تھام لیا تھا.." ایسا کرنے سے مدیحہ کے سارے وجود میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی تھی...اسنے جلدی اپنی آنکھیں کھولیں اور مقابل کو دیکھنے کی کوشش کی تھی..... وہ کچھ بولتی..... مقابل نے اُسکے لبوں پر اپنی انگلی رکھ دیا تھا..............
*"شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک
سوچ کر جرم تمنّا کی شزا دو ہم کو"*
بقلم
ملیحہ چودھری
وہ جب بولا تو مدیحہ اُسکے سحر میں گم سی ہو گئی تھی....."وہ جو ایک قدم کا فاصلہ وہ بھی مٹا گیا تھا اب اُسکے سانسوں کی تپش مدیحہ کِ چہرے پر پڑ رہی تھی..."تم میری ہو...! صرف اور صرف اپنے "شیزی "کی بہت جلد تم میری دسترس میں ہوگی...." اب وہ اسکو چہرے کو دیکھ رہا تھا..." مدیحہ نے خوف سے اپنی پلکیں اٹھا کر دیکھا تھا..." اس نے جب مدیحہ کی آنکھوں میں دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا...." وہ اب سامنے کھڑی دشمن جان کی قربت میں کھونے لگا تھا..." مدیحہ جب دیکھ کہ اُسکے گرفت ڈھیلی ہے تو وہ موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکو دھکّا دیا تھا" جس سے تھوڑا دور ہوا..." اور بولی آپ ہے کون...؟ اور آپکو شرم نہیں آتی مُجھسے ایسی باتیں کرتے...."وہ ابھی بول رہی جب شہزین نے اسکو کمر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا جس سے مدیحہ اُسکے سینے سے آ لگی.." اور اُسکے کان کِ طرف جھکتے اپنے مغرور بھاری آواز میں بولا تھا..."
you are mine.......
اور میں کون ہوتا ہوں ...؟"یہ آپکو جلد ہی پتہ چل جائیگا...اور ہاں ایک اور بات کبھی مُجھسے الگ ہونے کی بات یا پھر کبھی خود کو مجھسے دور کرنے کی کوشش مت کرنا..." ورنہ انجام کی زمّےدار تم خود ہوگی..... میری جان ع حیات... وہ بول کر وہاں سے چلا گیا تھا..." اور ایک دم ہی روم کی لائٹ جل گئی ہر طرف اب روشنی تھی..."وہ تو صرف سوچتی ہے رہ گئی کہ یہ کیا ہوا تھا اُسکے ساتھ .." وہ جلدی سے روم سے باہر نکلی اور رامین ( مائشا کِ دوست) لوگوں کے پاس چلی آئی تھی.... اسکا دل اب ہر شے سے اچاٹ ہو گیا تھا...
***********************
ماضی»»»»»»»
ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی ایک ایسی خاموشی جو طوفان آنے سے پہلے کی ہوتی ہے.."رات کے اس پہر ہسپتال میں بلکل اندھیرا تھا....آج مہرین کے پاس کمال شاہ اور صائمہ بیگم تھیں.."کمال شاہ ویٹنگ روم میں سو رہے تھے جبکہ صائمہ بیگم مہرین کے روم میں ہی روم میں پڑے سنگل صوفے پرسو رہی تھی" آج سب گھروالوں کو حیرت تھی کہ صائمہ کو آج اپنی (تایا + پلس فرینڈ) کی کیسے یاد آ گئی.... لیکن سب نے اپنی حیرت کو ایک طرف رکھکر صائمہ بیگم کو ہسپتال میں مہرین کے پاس روکنے کی اجازت دے دی تھی..مہرین بیگم اور ااُن کے برابر میں دو سالہ مدیحہ لیٹی ہوئی تھی.." انکی ابھی ابھی آنکھ لگی تھی..." ہر طرف اندھیرا اور خاموشی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا.." جب ایک دم سے شور اٹھا... ہر طرف بھگدڑ مچ گئی...صائمہ بیگم کی شور سے آنکھیں کھلی تو اُنہونے روم سے باہر جھانک کر دیکھا تھا" ہر کوئی ادھر سے اُدھر بھاگ رہا تھا... اُنہونے ایک آدمی کو روکا اور اُن سے شور کی وجہ پوچھی ... ارے بھائی کیا ہوا...؟ اتنا شور کیوں ہو رہا ہے رات کے اس پہر....؟ میڈم آپ بھی جلدی سے باہر نکلیں ہسپتال میں آگ لگ گئی ہیں." اس آدمی نے جلدی جلدی میں کہا تھا اور وہاں سے بھاگ گیا.." اور صائمہ بیگم نے بھی آگ لگ گئی .... آگ لگ گئی کا شور مچانا شروع کر دیا ...." اور وہاں سے بھاگتی ہوئی ویٹنگ روم کی طرف چلی آئی.... ویٹنگ روم کا دروازہ کھول کر صائمہ نے چلّانا شروع کر دیا تھا.."کمال اٹھو باہر ہسپتال میں آگ لگ گئی ہے." اٹھوں کمال اب وہ کمال کو جھنجھوڑ کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی..." بہت مشکل سے کمال کی آنکھیں کھلی تھی.." کیا ہوا صائمہ بھابی..؟ کامال نے آنکھوں کو رگڑتے پوچھا.." کمال آگ لگ گئی ہے ہسپتال میں.." صائمہ بیگم نے روتے ہوئے کمال کو بتایا اور اتنا سننا تھا کمال وہاں سے بہت تیزی سے بھاگا تھا...." مہرین کے روم کے سامنے جاکر جلدی سے اسنے دروازہ کھولا...." جہاں خالی روں اسکو منہ چڑا رہا تھا..." بس بےبی کاٹ سے مائشا کی رونے کی آواز آ رہی تھی..." کمال نے روتی ہوئی چھوٹی مائشا کو گود میں اٹھایا اور مہرین کو آواز دینے لگا مہرین مہرین ......مہرین میری جان کہاں پر ہو تم ..... مدیحہ گڑیاں...... گڑیاں........! وہ آواز دیتے دیتے تھک چکا تھا" لیکن مہرین ہوتی تو سامنے آتی بھی " کوئی فائدہ نہیں ہوا..." وہ تھک ہار کر ہسپتال سے باہر آ گیا... اُسکے پیچھے پیچھے صائمہ بیگم بھی تھی... کمال کا چہرا آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا.." ہر طرف مہرین کو کمال نے ڈھونڈ لیا تھا لیکن اسکو مہرین کہیں پر بھی نہ ملی" جب تک صائمہ نے ملک اور حسن شاہ کو فون کرکے ہسپتال آنے کے لیے بول دیا تھا....."سب گھروالوں نے مل کر ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی" پولیس اسٹیشن میں بھی رپورٹس لکھوا دی گئی.." اور اپنی کوشش بھی ڈھونڈیے کی جاری رکھی تھی..لیکن کوئی بھی فائدہ نہیں ہوا تھا۔۔۔۔"نہ تو کمال شاہ کو انکی بیٹی ملی تھی اور نہ ہی انکی شریکِ حیات... 
پندرہ سال بعد»»»»»»»
**"جو گم ہوتے ہیں وہ ملتے کہاں ہے
کبھی لگتا تھا ہم نہیں جی سکتے اُنکے بغیر
لیکن دیکھو
آج ہم جی رہے ہیں انکے لیے جو پاس ہے 
بقلم
ملیحہ چودھری 
ویسے تو دوپہر کے دو بج رہے تھے " لیکن آج موسم کچھ ابرآلود سا تھا" تو ایسا لگ رہا تھا جیسے رات ہو رہی ہو"بہت تیز تیز ہوائیں چل رہی تھی.."سارا آسمان کالے کالے بادلوں سے بھرا ہوا تھا.." ایسا لگتا تھا" جیسے یہ ہوائیں کسی کا گھر اُجاڑ کر آرہی ہو...."بابا بابا.... آپ کہاں پر ہو...؟ مائشا اپنے بابا کو آواز دیتی لائبریری میں آ گئی جہاں پر کمال شاہ کوئی کتاب ہاتھ میں تھامے دادا جان کی چیئر پر برجمان تھے.." کمال شاہ نے اپنی بیٹی کی آواز کو سن کر کتاب ایک طرف رکھی اور دروازے کی طرف محفوظ نظروں سے اپنی بیٹی" نہیں.. نہیں یہ کہنا زیادہ اچھا رہیگا (اپنی جان کو دیکھا) بلیک جینز اور اس پر ریڈ لونگ کرتا پہنے حجاب میں پُرنور چہرا دمکتی گلابی رنگت وہ بلکل گلاب کے پھول کی پنکھڑی جیسی لگ رہی تھی..." اس نے بلکل اپنی ماما کا نین نقش چرایا تھا.." بابا آپ یہاں پر بیٹھے ہیں اور میں آپ کو کب سے ڈھونڈ رہی ہوں پتہ بھی ہے آپکو...! وہ منہ پھلاتے اپنے بابا کی طرف دیکھ کر بولی تھی.."اوہ ہ ہ ہ ہو...." میری گڑیاں مجھے ڈھونڈ رہی تھی اور مجھے پتہ بھی نہیں چلا..." کمال شاہ افسوس سے بولے .." آپ روز یہیں بولتے ہیں...." کتنی بار بولا ہے بابا جب میں اسکول سے گھر آیا کروں تو آپ مجھے لاؤنج میں ملے پر نہیں.." آپ تھوڑی اپنی گڑیاں سے پیار کرتے ہے..وہ کمال شاہ یعنی اپنے بابا سے ناراض ہو کر ایک طرف چہرا کرتی بولی تھی...."لگتا ہے آج میری گڑیاں کچھ زیادہ ہی ناراض ہیں.." چلے کوئی بات نہیں ہم کو بھی اپنی گڑیاں کو منانا آتا ہے.. کمال شاہ آخری بات بہت آہستہ سے بولے تھیں " اگر یہی بات مائشا سن لیتی تو کبھی بھی نہ اپنی ناراضگی کو چھوڑتی" کمال شاہ یہ بول کر ایک بہت بڑا چاکلیٹ کا دبّہ اٹھا لائے اور پھر صغرا خالہ کو آواز دے کر انہیں لائبرری میں بلایا تھا.." صغرا خالہ میں نہ آج گُڈو کے لیئے یہ چاکلیٹ کا ڈبّہ لایا ہوں" ویسے تو میں یہ دبّہ اپنی گڑیاں کے لیے لایا تھا " جب ہماری گڑیاں ہم سے ناراض ہے تو آپ اس ڈبّے کو گڈو کے لیے لے جائے...اب گڑیاں تو چاکلیٹ لینے سے رہی" کمال شاہ اپنی مسکراہٹ روکے صغرا خالہ سے بول رہے تھے.." ہاں پُتر چاکلیٹ تو گُڈو کو بہت پسند ہے چلو میں ہی لے جاتی ہوں صغرا خالہ جیسے ہی دبّہ لینے کے لیے آگے بڑھی تھی اس سے پہلے مائشا نے اپنے بابا کے ہاتھ سے چاکلیٹ کا ڈبہ چھینتے بولی..." خالہ جانی یہ میرا ہے آپ کے گُڈو کے لیے نہیں.." میرے بابا لائے ہے میرے لئے اور آپ میرے اور بابا کے لیے کھانا لگائے اب ہم بابا سے غصّہ نہیں ہے.." مائشا منہ پھلائے بولی تھی" مائشا کے اس انداز پر صغرا خالہ اور کمال شاہ کی ہنسی بیختیارتھی"ھاھاھاھا ہاں بیٹوں پتہ ہے ہم کو یہ آپکے بابا لائے ہے.." یہ بول کر خالہ جانی چلی گئی تھی" اور مائشا بھی اپنے بابا کی گود میں سر رکھے وہیں پر لیٹ گئی.." گڑیاں پتہ ہے آپکی ماما بھی بلکل آپ کی ہی طرح تھی" عادت میں بھی اور صورت میں بھی" آپکو پتہ ہے آپکی ایک بڑی بہن ( آپی) بھی تھی..." کمال شاہ آج مائشا کو مدیحہ کے بارے میں بتانے کا ارادہ رکھتے تھے.." مائشا کو اس بات پر بلکل بھی حیرت نہیں تھی کہ وہ اپنی ماما سے مصاحبت رکھتی ہے.." بلکہ حیرت اس بات پر تھی کہ اُسکی ایک بڑی بہن بھی ہیں.. اور اسکو پتہ بھی نہیں" اچّھا ..! پر بابا آپی ہے کہاں پر اور کیسی دیکھتی ہے اور کیا نام تھا آپی کا" وہ پرجوش سی بولی..." بلکل آپکی ماما جانی جیسی.." تھوڑی تھوڑی مجھ میں بھی ملتی تھی.
اچھا پر بابا وہ ہے کہاں پر..؟ مائشا نے سوالیہ نظروں سے اپنے بابا کی طرف دیکھا...." پتہ نہیں بیٹا...؟" کمال شاہ نے اپنی آنکھوں سے آنسوؤں کو پوچھا تھا..."بابا روتے نہیں اللّٰہ سب ٹھیک کر دے گا انشاءاللہ...مائشا نے اپنے بابا کے آنسوں پوچھتے
کہا تھا.."انشاءاللہ بیٹا.." بابا میں آپ سے ایک بات پوچھوں....مائشا نے اپنے بابا کی طرف دیکھ کر اجازت چاہی.." ہاں ہاں گڑیاں .. کب سے آپکو اجازت لینے کی ضرورت پڑ گئی ہے...' بابا میرے بڑے بابا یعنی( تایا ابّا) بھی تھیں کیا...؟ ہاں بیٹا لیکن آپ کیوں پوچھ رہی ہے...؟ کمال شاہ نے اس سے پوچھا تھا.." بابا دادو بتارہی تھی" اور پتہ ہے دادو تو یہ بھی بتا رہی تھی کہ آپ نے اُن سے تایا ابّا کو ڈھونڈنے کا وعدہ بھی کیا ہے..." وہ بہت معصومیت سے اپنے بابا کای طرف دیکھ کر بول رہی تھی.." ہاں بیٹا... کیا تو تھا.. مائشا بیٹا آپ مجھ سے ایک وعدہ کروگی.." مائشا نے نہ سمجھیں سے اپنے بابا کی طرف دیکھاجیسے پپوچھ رہی ہو کون سا وعدہ..؟بیٹا اگر آپکے بابا نہیں رہے نہ تو آپ کبھی اللّٰہ کو نہیں بھولے گی.." باقاعدگی سے نماز ادا کیا کرے گی" اور اللہ سے کبھی مایوس بھی مت ہونا۔۔ کیونکہ جو اللہ سے مایوس ہو کر اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔۔" اللّٰہ انکو نہ پسند کرتا ہے .." اور بیٹا اپنا ہر معاملہ اللّٰہ کے سپرد کر دیا کرنا " چاہے کتنی بھی بڑی پریشانی ہو"جو شخص اللہ کے سپرد اپنا معاملہ چھوڑتے ہیں نہ تو اللہ اتنا اچھا فیصلہ کرےگا.." کہ دنیا اگر ساری بھی کرنی چاہے تو بھی نہیں کر سکتی بیشک وہ بہت اعلیٰ فیصلہ کرتا ہیں.." بیٹا ایک اور وعدہ کرنا.." میرے بعد آپ اپنے بابا کے خواب یعنی اپنے تایا جان کو ڈھونڈ کر اپنی دادو کے پاس لاؤگی.... لاؤگی نہ بیٹے...؟ یہ سب بول کر کمال شاہ نے اپنی جان سے پیاری بیٹی کی طرف دیکھا تھا..." افكورس لاونگی بابا.... اور میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کبھی میں آپکو مایوس نہیں کرونگی اور نہ ہی اپنے اللّٰہ کو..." اور آپ کہیں نہیں جا رہے...کیونکہ آپ اب میرے ساتھ لنچ کرنے ڈائننگ روم میں کا رہے ہیں..." آخری بات مائشا نے اپنے بابا کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کرتے کہی تھی.....
اس بات سے بے خبر کہ اُسکے بابا کا ساتھ کوچھ ہی گھنٹوں کے لیے ہے۔۔اور اُسکی آزمائش شروع ہونے والی ہے.. بے شک وہ لےکر ہی تو آزماتا ہے اپنے خاص بندوں کو۔۔۔"القھارُ"(زبردست ہے)....
***********************
السلام وعلیکم لیڈیز اینڈ جينٹليمن.. کیسے ہیں آپ سب..؟ اُمید ہے آپ سب اللّٰہ کے کرم سے بلکل ٹھیک ہو گے..."کیونکہ آپ ٹھیک ہے تبھی تو ہم سب کِ ساتھ کھڑے ہیں... عالیان کِ بات پر سب ہی ہنس پڑے تھے" کیوں میں صحیح بول رہا ہوں نہ...؟ عالیان نے یہ بول کر سبکی طرف مائک کیا تھا...جب ایک ساتھ شور اٹھا تھا.." ہاں ہاں بلکل... یہ آواز پارٹی میں اکھٹا ہونے والوں کی تھی.." عالیان نے پھر سے مائک اپنے سامنے کیا تھا.." تو پھر آپ سب جانتے ہوگے کہ پارٹی میں آپ کس وجہ سے شامل ہوئے ہے.." چلو میں بتا دیتا ہوں..
Today our and Ehsan Industries have a project deal. "And this is Madiha Salman Shah...., who handles Ehsan Industries. Owner of Ehsan Industries
(آج ہمارے اور احسان انڈسٹریز کے درمیان ایک پروجیکٹ ڈیل ہے۔ "اور یہ مدیحہ سلمان شاہ ہیں ......، جو احسان انڈسٹریز کو سنبھالتی ہیں۔۔۔ احسان انڈسٹریز کے مالک)..پورا لان اندھیرے سے چھایا ہوا تھا..."ایک سفید لائٹ مدیحہ کے اوپر آن ٹھہری تھی.." اب سبکی نظروں کا مرکوز مدیحہ تھی.."اور ان ہی کے ساتھ ہمارے ڈیل ہوئی ہے"ہوں ں ں ........" یہ تو ہو گئی ہماری کمپنی اور احسان انڈسٹریز کی طرف سے تھوڑی سے انٹروڈیوس... " لیکن پارٹی رکھنے کے مقصد دو تھے.."جن میں سے ایک تو آپ جان ہی چکے ہیں.." دوسرا مقصد آپ اب جان جائے گے.." ایک گولڈن لائٹ لان میں بچھی ہوئی کارپیٹ پر پڑی اور پھر گھومتی ہوئی وہ مائشا کے اوپر جا ٹھہری تھی..." اب سب مائشا کمال شاہ کو اُلجھی نظروں سے دیکھ رہے تھے بلکہ خود مائشا بھی کنفیوزڈ ہو گئی تھی آخر یہ عالیان کیا کر رہا ہے...؟ سبکی نظروں کا مرکز مائشا پر آن ٹھہرا تھا.." آپ سب کے دل میں یہ سوال اٹھ رہا ہوگا کہ یہ لائٹ کیوں اس لڑکی پر.... نہیں نہیں بلکہ اس گھر کی سب سے چھوٹے بیٹے کمال شاہ کی بیٹی پر کیوں آن ٹھہری ہے..؟ اور یہ سوال آپ سب کا سوچنا درست بھی ہیں..." عالیان نے اپنے ہاتھ میں پہنی واچ کی طرف دیکھا جہاں بارہ بج نے میں دو منٹ تھیں.." چلے انتظار کرے.." بھئی جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے..." اور ہم شیطان تھوڑی ہے..."ہم انسان ہے انسان اور انسانوں کے اندر صبر ہونا چاہئے" جو کہ میرے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے.. عالیان نے سب کی طرف دیکھ کر آخری بات مذاق میں بولی تھی..اس نے ایسی ہی اُوت پٹانگ باتوں سے دو منٹ گزار دیے تھے.." دو منٹ بعد عالیان نے نور کی طرف اشارہ کیا تھا.." نور اشارے کو سمجھتے ہوئے مائشا کا ہاتھ تھامے اسٹیج پر لے آئی تھی.." صحیح بارہ بجے اور ہر طرف" ہپپی برتھڈے ٹو یوں "کا شور گنجا تھا.... عالیان مائشا کی طرف گھما تھا اور مائشا کے سامنے برتھڈے کیک کی ٹرالی لایا تھا.." مائشا نے آنسوؤں سے بھری پلکیں اُٹھا کر سامنے دیکھا تھا..."آج دو سال بعد اگر کسی کو وہ یاد تھی تو عالیان ملک شاہ تھا.." وہ رو دینے کو تھی جب نور نے مائشا کو رونے سے منا کیا اور کیک کاٹنے کا اشارہ کیا تھا...." مائشا نے کیک کاٹنے کے لیے جُھکی پھر ایک نظر اپنے سامنے کھڑی رامین ،نور ،مدیحہ ،عالیان کی طرف سے گزرتی ہوئی منہال پر آن ٹھہری تھی.."اور اسکو دیکھتے ہوئے مائشا نے کیک کٹ کیا .....منہال کی نظروں کا فوکس بھی مائشا ہی تھی "وہ ایک طرف کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا.." اور اسکو خوشی بھی تھی کہ وہ مائشا کے برتھڈے میں شامل ہوا ہے.." اُسے نہیں معلوم تھا کہ آج اُسکی مائشا کا برتھڈے ہے"اگر پتہ ہوتا تو ضرور کچھ نہ کچھ گفٹ لاتا لیکن کوئی بات نہیں یہ خواہش اُس نے آنے والی زندگی کے لیے رخ دی تھی " منہال نے اللہ کہ شکر ادا کیا اور ساتھ ہی ساتھ مدیحہ کا بھی" کیونکہ وہ اس پارٹی میں آنے کے لئے ریڈی نہیں تھا"اور مدیحہ جد کرکے اسکو اپنے ساتھ لائی تھی...سب نے مائشا کو اُسکے برتھڈے کی مبارک باد دی تھی....منہال بھی اسکو مبارک باد دینے کے لئے اسٹیج پر آیا..ہپپی برتھڈے ٹو یوں مائشا اس نے بول کر مائشا کی آنکھوں میں جھانکا..مائشا نے منہال کی طرف دیکھا...."تھینک یوں"...مائشا نے مسکرا کر اسکو تھینکس بولا تھا...."بھائی اب جب آپ آ ہی گئے ہیں اسٹیج پر تو پلیز ایک سونگ ہی گا دیں"نور نے منہال کی مینتیں کرتے بہت آہستہ آواز میں کہا تھا....پر گڑیاں .."بھائی اچھا موقع ہے.." گوائیں مت اسکو..."نور نے نظروں ہی نظروں میں منہال کو بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی.....اچھا اچھا ٹھیک ہے.." منہال سونگ سنانے کے لئے ہامی بھرلی..." اس نے مائیک تھاما تھا..اور بولا..
hello everybody..I don't know if you will like my song "but I am singing this
song for very special person...
(ہیلو سب کو .... مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو میرا گانا پسند آئے گا یا نہیں "لیکن میں یہ گانا بہت ہی خاص شخص کے لئے گا رہا ہوں۔)
اسنے یہ بول کر سونگ گانا شروع کیا تھا..........
لان کی ساری لائٹ بند کر دیے گئے تھے" صرف درمیانی لائٹ کے علاوہ جو کی منہال کے اوپر تھی.."ارمان ملک "کی آواز میں.. سونگ گانا شروع کیا گیا.........................

آہٹیں کیسی یہ آہٹیں......
سنتا ہوں آج کل اے دل بۃ.....
دستکیں دیتی ہیں دستکیں....
کیوں اجنبی سے پل اے دل بۃ.......

اُسکے نظروں کا مرکز صرف اور صرف مائشا تھی..." مائشا کا تو برا حال تھا..." دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا..." ایسا لگ رہا تھا.." جیسے اُسکے دل کا حال منہال اس گانے کے لفظوں سے بیان کر رہا ہو...

کچھ تو ہے جو نیند آئے کم....
کچھ تو ہے جو آنکھیں ہے نم......
کچھ تو ہے جو تُو کہہ دے تو.....
ہنستے ہنستے مر جاۓ ہم...........
اوہ ہ ہ.......................... آں ں ں............ اوہ ہ ہ.......

اللّٰہ نہ کرے" گانے کے آخری الفاظوں پر مائشا کے دل سے بیختیار نکلا تھا.." دونوں کی نظریں ٹکرائی اور پلٹنا ہی بھول گئی تھی.........منہال نے مائشا کی آنکھوں میں دیکھتے گانا شروع کیا...

مُجھسے زیادہ میرے جیسا.....
کوئی ہے تو ہے تُو.......
پھر نہ جانے دل میرا کیوں....
تُجھکو نہ دیں سکون...
کچھ تو ہے جو دل گھبرائے.......
کچھ تو ہے جو سانس نہ آئے.....
کچھ تو ہے جو ہم ہونٹوں سے.....
کہتے کہتے کہہ نہ پائے..........
اوہ ہ ہ ............ آں ں ں ں......اوہ ہ ہ....

نظروں نے نظروں سے باتیں کرنا شروع کیا تھا"دونوں کے دل ایک ہی لے پر دھڑک رہے تھیں.." الفاظ گانے کے تھیں لیکن ترجمانی دل کی...

جو ہمارے درمیان ہے....
اُسکو ہم کیا کہے...... 
عشق کیا ہے ایک لہر ہے..... 
آؤ اس میں بہئیں.....
کچھ تو ہے جو ہم ہے کھوئے......
کچھ تو ہے جو تم نہ سوئے.... 
کچھ تو ہے جو ہم دونوں یوں....
ہنستے ہنستے اتنا روئے..........
اوہ ہ ہ ....... آں ں ں........ اوہ ہ ہ .....

مائشا کی آنکھوں سے آنسؤں بہنے لگے...."اسکو یقین ہو گیا تھا کہ وہ منہال کے بغیر ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتی.." منہال نے جب مائشا کِ آنکھوں میں آنسو دیکھے تو بن کچھ کہے وہ اسٹیج سے اتر گیا تھا.." اب اسکو جلد سے جلد مدیحہ کو لے کر گھر جانا تھا اس سے نہیں دیکھے جا رہے تھے مائشا کِ آنسو "اُسکے باد چلتا وہ اپنے لبوں سے ان آنسوؤں کو چن لیتا.."منہال نے مدیحہ کو آواز دے کر اور اُن سب سے معازرت کرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا ..."مایو کی نظروں نے منہال کا دور دور تک پیچھا کیا تھا" اللّٰہ اسکو میرا بنا دے... اُسکے دل سے دعا نکلی تھی..." جو عرش پر بیٹھنے والے نے سن لی تھی.." اور اُسکے دعا پر کُن کہہ دیا گیا۔"ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے جس میں اللہ اپنے بندوں کی دعاؤں پر کُن کہتا ہے" اور آج اللّٰہ نے مائشا کی دعا قبول کر لی تھی...اللّٰہ نے اُن دونوں کے نصیب ایک دوسرے سے جوڑ دیے تھے" لیکن ابھی اُن دونوں کو ایک دوسرے تک کا سفر کرنے کے لئے بہت سی آزمائشوں سے ہو کر گزرنا تھا۔۔۔۔۔کیونکہ اللہ اپنے نیک بندوں سے ہی تو آزمائش لیتا ہے"اور محبّت میں تو آزمائش دینی ہی دینی پڑتی ہے..." بغیر آزمائش کے تو زلیخا کو بھی یوسف علیہ سلام نہیں ملے تھیں..." یہ تو پھر بھی ایک عام سے بندے کی آزمائش تھی..." بے شک وہ "البارئُ "(پورے عالم کو بنانے والا) ہے۔۔۔ہر چیز پر قادر الملكُ (بادشاہ) ہے.....

،


   1
0 Comments